ملالہ مجھے لگتی ہے دلالہ
قضا نے کیا ہے تیرا منہ کالا
کیا غرض تھی جو اتنا اچھالا
یا طوفان کوئی تم نے تھا ٹالا
ٹی وی پر کیا تو نے تو فسوں تھا
تعلیم و تعلم کا بھی جنوں تھا
سنو بند ہیں کاشر میں ادارے
ہیں برسوں سےگردش میں ستارے
لہو رنگ ہیں وادی کے نظارے
شکایت کناں ہیں سارے کے سارے
کہو کچھ، ذرا سے لب بھی تو کھولو
کیا ہو گیا تم کو ،کچھ تو بولو
پٹھانوں میں اب نفرت کی کلا ہو
حقیقت میں تم شیطانی بلا ہو
بہت گزرے ہیں تم جیسے یہاں سے
بے نام و نشاں ہیں نقش جہاں سے
گزر جائیں گے دن آہ و فغاں کے
نہ محتاج ہیں ہم تیرے بیاں کے
بقلم ڈاکٹر شفیق الرحمٰن شیرازی
No comments:
Post a Comment