Kashmir's Child Rap Star.
ارون دھتی رائے نے بھارتی دانشوروں کو جھنجھوڑ ڈالا
بھارتی مصنفہ ارون دھتی رائے نے کہا ہے کہ کشمیر میں جو کچھ ہورہا ہے، وہ انتہائی شرمناک ہے، ان حالات میں’میرا بھارت مہان‘ کہنے سے قاصر ہوں۔
ارون دھتی رائے نے اپنے تازہ بیان کے ذریعے بھارتی دانشوروں کو جھنجھوڑ ڈالا ہے۔
بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق خاتون مصنفہ نے کشمیر کے لیے آواز بلند کرنے اور بھارتی مظالم کی مخالفت کا مطالبہ کیا۔
ارون دھتی رائے نے بھارتی میڈیا کو آئینہ دکھاتے ہوئے کہا کہ بہت کم صحافیوں نے کشمیر کے حالات کی صحیح ترجمانی کی ہے۔
بھارتی مصنفہ نے ہندو انتہا پسندوں کے بڑھتے اثر رسوخ کے پیش نظر یہ خیالات بھی پیش کیا کہ بھارت کو نئی تحریک اور نئے میڈیا کی ضرورت ہے۔
یہ وطن ہمارا ہے
محبتیں بکھرتے بڑھے چلو بڑھے چلو
عظمتوں کا راستہ ہے ہمارا راستہ
سرینگر کا راستہ ہے ہمارا راستہ
مقبول بٹ کا راستہ ہے ہمارا راستہ
غیرتوں کا راستہ ہے ہمارا راستہ
سن لو غاصبو ہم تمھاری موت ہیں
سن لو قابضو ہم تمھاری موت ہیں
کشمیر کا ذرہ ذرہ ہے کشمیر میں رہنے والوں کا
وطن ہمارا قبضہ تمھارا نہ منظور نہ منظور
ڈیم ہماری بجلی تمھاری نہ منظور نہ منظور
عدالتیں ہماری قانون تمھارا نہ منظور نہ منظور
پارلیمنٹ ہماری نوکر تمھارے نہ منظور نہ منظور
یہ وطن ہمارا ہے
اسکی خاطر ہم لڑیں گے
اسکی حفاظت ہم کریں گے
اس پر حکومت ہم کریں گے
Brave Indian Girl Stand with People of Kashmir
Brave Indian Girl Stand with People of Kashmir.
Thanks to her from all Muslims World. May Allah bless her.
How to protect the honor of Kashmiri sisters?
بہنوں کی عزت کیسے بچائیں؟
فاطمہ مسلسل روئے چلی جا رہی تھی۔ بلوندر سنگھ بار بار اُسے دلاسا دے رہا تھا اور کہہ رہا تھا اوئے چھوٹی اپنے آپ کو سنبھال جو بات کہنے آئی ہے وہ بتا، بھائی جی بڑے مصروف آدمی ہیں تو نے تو سارا ٹائم رونے میں ضائع کردیا۔ میں نے پانی کی بوتل کھولی اور فاطمہ کی طرف بڑھا کر کہا کہ آپ تھوڑا پانی پی لیں۔ فاطمہ نے پانی پیا اور پھر اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے خالص کشمیری لہجے میں ملی جلی اُردو اور انگریزی بولنے لگی۔ اُس نے کہا میں بڑی اُمید لے کر آپ کے پاس آئی ہوں، آپ کا شکریہ کہ آپ نے ہمیں وقت دے دیا اور ہمیں معاف کر دیں ہم نے آپ کے ساتھ علیحدگی میں ملاقات پر اصرار کیا اگر آپ مصروفیت کا بہانہ بنا کر ہمیں وقت نہ دیتے تو ہم آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے تھے۔ فاطمہ اور بلوندر کے ساتھ میری ملاقات اجیت کے ذریعہ ہوئی۔ لندن میں برطانوی پارلیمنٹ کے باہر مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے لوگوں کے ساتھ جیو نیوز کے لئے ایک پروگرام کی ریکارڈنگ کے بعد میں مانچسٹر سے رکن پارلیمنٹ افضل خان کا شکریہ ادا کر رہا تھا کہ پینٹ شرٹ میں ملبوس ایک نوجوان لڑکی نے سرگوشی کے انداز میں مجھے ہیلو کیا اور پھر پنجابی میں کہا کہ میری ایک دوست کا تعلق سرینگر سے ہے وہ آپ کو ملنا چاہتی ہے۔ میں نے کہا آپ کی دوست کہاں ہے؟ لڑکی نے کہا میری دوست یہاں نہیں آ سکتی، کچھ پرابلم ہے۔ آپ سے بنتی ہے کہ آپ ہمیں آج شام کو ملاقات کا وقت دے دیں۔ میں نے اندازہ لگا لیا کہ بنتی کا لفظ استعمال کرنے والی یہ لڑکی ہندو یا سکھ ہے۔ میں نے پوچھا آپ کون؟ اُس نے کہا کہ ’’آئی ایم اجیت‘‘۔ وہ بار بار کچھ دور کھڑے گورچرن سنگھ کی طرف دیکھ رہی تھی اور اُس کی نظروں سے بچنے کی کوشش کر رہی تھی۔ میں نے پوچھا کہ آپ گورچرن کو جانتی ہیں؟ اجیت نے کہا کہ گورچرن جی میرے بڑے بھائی بلوندر کے دوست ہیں یہ آپ کے پروگرام میں شریک تھے ان پر انڈین گورنمنٹ نے بہت سے جاسوس چھوڑ رکھے ہیں اور انہی کی وجہ سے میری کشمیری دوست آپ کو یہاں نہیں مل رہی کیونکہ گورچرن بھائی سے ملنے جلنے والوں کی وڈیو اور تصویریں بنا کر اُن کی شناخت ڈھونڈ لی جاتی ہے اور اس وقت میری دوست اپنی شناخت چھپانا چاہتی ہے کیونکہ اُس کی فیملی انڈیا میں بڑی مشکل صورتحال سے دوچار ہے۔ میں نے اجیت کو بتایا کہ آج شام کو مصروف ہوں، کل صبح آپ میرے ہوٹل آ جائیں۔ اجیت نے دونوں ہاتھ جوڑ کر کہا آپ بُرا نہ منانا ہم ہوٹل میں بھی نہیں مل سکتے کیونکہ ہمیں پتا ہے یہاں آپ پر بھی بہت لوگوں کی نظر ہے۔ اُس نے مجھے آکسفورڈ اسٹریٹ پر ایک اٹالین ریسٹورنٹ کا ایڈریس دیا اور اگلے دن صبح دس بجے وہاں ملاقات کا وقت طے ہو گیا۔
اگلے دن مقررہ وقت پر اجیت اپنی دوست کشمیری لڑکی کے ساتھ ملاقات کے لئے آئی تو ساتھ میں ایک لمبا تڑنگا سکھ نوجوان بھی تھا۔ یہ بلوندر تھا جو اجیت کا بڑا بھائی تھا۔ اس کشمیری لڑکی نے مجھے اپنا جو نام بتایا وہ میں پورا نہیں لکھ رہا صرف نام کا دوسرا حصہ فاطمہ لکھا رہا ہوں۔ فاطمہ اور بلوندر کو میرے ساتھ بٹھا کر اجیت نے ہمارے لئے چائے پانی کا آرڈر دیا اور ریسٹورنٹ سے باہر جا کر بیٹھ گئی۔ ہماری ملاقات شروع ہوئی تو فاطمہ نے رونا شروع کر دیا۔ اب آہستہ آہستہ وہ ٹشو پیپر سے اپنے آنسو خشک کر کے مجھے اپنی کہانی سنا رہی تھی۔ فاطمہ کے والد سرینگر میں کشمیری شالوں کا کاروبار کرتے ہیں۔ کچھ سال پہلے فاطمہ کو اعلیٰ تعلیم کے لئے دہلی کے ایک کالج میں داخلہ مل گیا تو اُس کے والد نے دہلی میں ایک فلیٹ کرائے پر لے لیا۔ وہ بیٹی کے ساتھ دہلی آ گئے اور وہاں کشمیری شالوں کے کاروبار کو پھیلانے کی کوشش کی۔ دو سال کے بعد فاطمہ کی ایک اور بہن کو بھی دہلی میں داخلہ مل گیا تو فاطمہ کی باقی دو بہنیں اور والدہ بھی دہلی آ گئے۔
اس دوران فاطمہ قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے برطانیہ آ گئی۔ 5اگست 2019کو بھارتی حکومت نے ریاست جموں و کشمیر میں کرفیو نافذ کیا تو فاطمہ کے والد سرینگر میں اور دو بہنیں والدہ کے ساتھ دہلی میں تھیں۔ فاطمہ اور اس کی فیملی کا اپنے والد سے رابطہ منقطع ہو گیا۔ اس دوران دہلی سمیت بھارت کے مختلف شہروں میں کشمیریوں پر حملے شروع ہو گئے اور کشمیری خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات پیش آنے لگے۔ دہلی میں زیر تعلیم بہت سی کشمیری طالبات کے اپنے خاندانوں کے ساتھ رابطے ختم ہو گئے۔ فاطمہ کی ایک کزن اور سہیلی کا تعلق بھی سرینگر سے ہے۔ یہ دونوں بھی دہلی کے ایک ہوٹل میں مقیم تھیں۔ دہلی میں ہندو لڑکوں نے کشمیری لڑکیوں کو ہراساں کرنا شروع کیا تو فاطمہ کی کزن اور سہیلی دہلی میں اُس کی بہنوں کے پاس آ گئیں۔ اب ایک چھوٹے سے فلیٹ میں چار لڑکیاں اور ایک خاتون مقیم تھیں جو دن رات سرینگر میں اپنے خاندانوں سے رابطے کے لئے بھاگ دوڑ کر رہی تھیں۔ کچھ ہی دنوں میں ان سب کی پریشانی ایک تماشہ بن گئی اور آر ایس ایس کے غنڈوں نے ان نہتی لڑکیوں کو ڈرانا دھمکانا شروع کر دیا۔ پچھلے ہفتے فاطمہ کے والد کسی طریقے سے واپس دہلی پہنچے۔ اُنہوں نے اپنے فلیٹ پر مقیم چار جوان لڑکیوں کی عزت بچانے کے لئے دبئی میں مقیم اپنے دوست ظفر نائیک سے رابطہ کیا۔ ظفر نائیک نے ان لڑکیوں کو ایک اور خلیجی ملک لانے کا بندوبست کر لیا لیکن اس دوران ان کا فون بند ہو گیا۔ فاطمہ بتا رہی تھی کہ دو دن پہلے اُس کی بہن کو دہلی میں اغواء کرنے کی کوشش ہوئی ہے۔ اس دوران فاطمہ کے والد نے ظفر نائیک کا ذکر میرے ایک حالیہ کالم میں پڑھا تو مجھ سے رابطے کی کوشش کی۔ کوشش کامیاب نہ ہوئی۔ پھر اُنہیں پتا چلا کہ میں برطانیہ آیا ہوا ہوں تو اُنہوں نے فاطمہ سے کہا کہ کسی طرح حامد میر تک پہنچو اور ظفر نائیک کا رابطہ مانگو۔ فاطمہ نے کہا کہ اب میرے والد اور باقی خاندان کو بلوندر بھائی کے چچا نے جالندھر میں اپنے گھر پناہ دے رکھی ہے۔ ہمیں ظفر نائیک کا فون نمبر چاہئے۔ میں نے فاطمہ کو بتایا کہ ظفر نائیک نے دو ہفتے پہلے دبئی چھوڑ دیا ہے اور دوحہ چلے گئے ہیں اُن کا نمبر بدل گیا ہے اور طبیعت بھی ناساز ہے۔ بہرحال میں نے کچھ تگ و دو کے بعد ظفر نائیک کو تلاش کر لیا تو وہ واقعی بیمار تھے۔ اُنہوں نے فاطمہ کے ساتھ فون پر بات کر لی اور کہا کہ میں بیماری کے باعث آپ کے والد سے رابطہ نہ کر سکا آج ہی رابطہ کرتا ہوں اور تمہاری بہنوں کو دوحہ بلاتا ہوں۔ پھر فاطمہ نے اپنے والد کو بھی یہ خوشخبری سنا دی۔ اب اُس کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ اُسے سب کچھ مل گیا ہے۔ رخصت ہوتے وقت بلوندر سنگھ نے مجھے کہا کہ ہم نے مل جل کر چار کشمیری لڑکیوں کی عزت تو بچا لی لیکن ہزاروں لاکھوں کشمیری بہنوں کی عزتیں خطرے میں ہیں، آپ کے وزیراعظم نے اعلان کیا ہے کہ ہر جمعہ کو آدھ گھنٹہ کے لئے بھارت کے خلاف احتجاج کرو کیا اس طرح بہنوں کی عزت بچائی جاتی ہے؟
ملالہ مجھے لگتی ہے دلالہ - malala yousafzai silence on kashmir
ملالہ مجھے لگتی ہے دلالہ
قضا نے کیا ہے تیرا منہ کالا
کیا غرض تھی جو اتنا اچھالا
یا طوفان کوئی تم نے تھا ٹالا
ٹی وی پر کیا تو نے تو فسوں تھا
تعلیم و تعلم کا بھی جنوں تھا
سنو بند ہیں کاشر میں ادارے
ہیں برسوں سےگردش میں ستارے
لہو رنگ ہیں وادی کے نظارے
شکایت کناں ہیں سارے کے سارے
کہو کچھ، ذرا سے لب بھی تو کھولو
کیا ہو گیا تم کو ،کچھ تو بولو
پٹھانوں میں اب نفرت کی کلا ہو
حقیقت میں تم شیطانی بلا ہو
بہت گزرے ہیں تم جیسے یہاں سے
بے نام و نشاں ہیں نقش جہاں سے
گزر جائیں گے دن آہ و فغاں کے
نہ محتاج ہیں ہم تیرے بیاں کے
بقلم ڈاکٹر شفیق الرحمٰن شیرازی
اور میں لاجواب ہو گیا - Hamid Mir Column on Kashmir Freedom Movement
اور میں لاجواب ہو گیا
دریائے پونچھ کے کنارے واقع اس خوبصورت گائوں کا نام مدارپور تھا۔ ہجیرہ سے تیتری نوٹ کراسنگ پوائنٹ کی طرف جاتے ہوئے لائن آف کنٹرول کے قریب اس گائوں کے مکین کئی دنوں سے اپنے گھروں میں محصور ہیں کیونکہ بھارتی فوج اس گائوں کی آبادی کو مسلسل نشانہ بنا رہی ہے۔ اس علاقے میں زیادہ اونچے پہاڑ نہیں ہیں۔ چھوٹے چھوٹے پہاڑوں کی چوٹیوں پر بھارتی فوج کے مورچے ہیں جبکہ مدارپور نیچے وادی میں ہے۔ بھارتی فوجی اکثر اوقات گائوں والوں کی مرغیوں اور بکریوں پر بھی نشانے لگاتے ہیں لیکن پانچ اگست کے بعد سے وہ انسانوں پر نشانے لگا رہے ہیں۔ اس گائوں کے قریب درختوں کی اوٹ میں علاقے کے ایک بزرگ نے مجھے بتایا کہ ہم نے 1947میں اپنے زورِ بازو سے پونچھ کے اس علاقے کو آزادی دلوائی تھی، ہم سرینگر کے قریب پہنچ گئے تھے لیکن بھارت کا مکار وزیراعظم پنڈت نہرو اقوام متحدہ میں پہنچ گیا اور اس نے سیز فائر کرادیا۔
یہ سیز فائر لائن بعد میں کنٹرول لائن بن گئی اور بھارت اس کنٹرول لائن کو مستقل سرحد بنانا چاہتا ہے لیکن ہم کشمیر کی تقسیم نہیں مانیں گے، ہم بہت جلد اس کنٹرول لائن کو روند دیں گے۔ قریب کھڑے نوجوانوں نے اپنے اس بزرگ کی فوری تائید کی اور کہا کہ ہم پر روزانہ فائرنگ کا مقصد یہ ہے کہ ہم خوفزدہ ہو کر اپنا علاقہ چھوڑ دیں لیکن ہم اپنے گھر اور کھیت چھوڑ کر فرار ہونے کے بجائے کنٹرول لائن کو پار کرنے کی کوشش کریں گے۔ بزرگ نے کہا کہ تتہ پانی کے قریب ایک گائوں درہ شیر خان میں بھارتی فوج نے شادی کی ایک تقریب میں فائرنگ کی اور میرا ایک پرانا دوست لال محمد شہید ہو گیا جس کی عمر اسی برس سے بھی زیادہ تھی، کیا دنیا کو نظر نہیں آتا کہ بھارتی فوج شادیوں پر حملے کر رہی ہے؟ یہ سن کر میں نے پوچھا کہ درہ شیر خان کتنی دور ہے؟ بزرگ نے بتایا کہ کم از کم ایک گھنٹے کی ڈرائیو ہے لیکن وہاں پہنچنا مشکل ہے کیونکہ اس گائوں کے لوگ بھی مدارپور والوں کی طرح گھروں میں محصور ہیں اور بھارتی فوج گھر سے باہر نکلنے والوں پر گولیاں چلاتی ہے۔ بزرگ نے کہا درہ شیر خان کے قریب سہڑہ میں بھارتی فوج نے ایک گرلز کالج اور چھوٹے ہاسپٹل پر گولے برسائے ہیں، آپ وہاں چلے جائیں۔ میں نے سہڑہ کا راستہ سمجھا اور اجازت لی تو بزرگ نے پوچھا کہ کیا یہ درست ہے کہ نریندر مودی کو متحدہ عرب امارات کا سب سے بڑا ایوارڈ دیا جائے گا؟ میں نے اثبات میں سر ہلایا تو بزرگ نے کہا کہ ہم اس ایوارڈ کو کبھی نہیں بھولیں گے، جب ہم لاشیں اٹھا رہے ہیں تو ہمارے قاتل کو ایوارڈ دیا جارہا ہے۔
تھوڑی دیر کے بعد میں دریائے پونچھ کے کنارے پر سفر کرتا ہوا ایک تنگ پل عبور کر کے سہڑہ پہنچا تو درہ شیر خان کے اسی سالہ بزرگ لال محمد کے خاندان سے ملاقات ہوئی جو کچھ زخمی بچوں کو لے کر سہڑہ آئے تھے تاکہ ان کی مرہم پٹی کی جا سکے۔ یہ چھوٹے چھوٹے بچے ایک گھر کے قریب گولہ پھٹنے سے زخمی ہوئے تھے اور جس بنیادی صحت مرکز میں انہیں مرہم پٹی کے لئے لایا گیا اس پر بھی ایک دن پہلے گولہ مارا جا چکا تھا۔ ان بچوں کے باپ نے مجھے بتایا کہ مقبوضہ کشمیر کے لوگ بھی اپنے گھروں میں قیدی ہیں اور ہم بھی اپنے گھروں میں قیدی ہیں۔ وہ بھی لاشیں اٹھا رہے ہیں، ہم بھی لاشیں اٹھا رہے ہیں، ان کے بچے بھی اسکولوں میں نہیں جا رہے ہیں، ہمارے بچوں کے اسکول بھی بند ہیں۔ لائن آف کنٹرول کے آس پاس صرف اسکول کالج نہیں اکثر کاروباری مراکز بھی بند رہتے ہیں لیکن ہم یہاں سے نہیں بھاگیں گے ہم لڑیں گے۔
ادھر ایک ہجوم اکٹھا ہو چکا تھا۔ ایک خوبصورت نوجوان نے مجھے مخاطب کیا اور کہا: ایک بات پوچھنا تھی۔ مجھے گورنمنٹ گرلز کالج سہڑہ پہنچنے کی جلدی تھی جہاں بھارتی فوج نے گولہ مارا تھا۔ میں نے مسکرا کر نوجوان سے کہا کہ میں ذرا جلدی میں ہوں، وہ میرے ساتھ ساتھ چلنے لگا اور کہا کہ آپ نے ایران کے رہبر آیت اللہ علی خامنائی کا بیان دیکھا ہے جنہوں نے اس مشکل وقت میں ہم کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا ہے؟ میں نے کہا کہ ہاں ان کے ٹویٹ پر تو بھارتی میڈیا میں بڑا ماتم ہو رہا ہے۔ نوجوان نے کہا کہ ہمارے قاتل مودی کو متحدہ عرب امارات میں ایوارڈ دیا جا رہا ہے، کیا پاکستان کی حکومت ہمارے محسن آیت اللہ علی خامنائی کو پاکستان کا سب سے بڑا سول ایوارڈ دے گی؟ یہ سن کر میں اچانک رک گیا۔ غور سے اس نوجوان کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں سے شعلے نکل رہے تھے۔ میں نے اپنے آپ سے پوچھا کہ اس سوال کا کیا جواب ہے؟ مجھے کوئی جواب نہ سوجھا۔ میں اس نوجوان کے ساتھ کوئی غلط بیانی نہیں کرنا چاہتا تھا۔ میں خاموشی سے آگے بڑھ گیا۔
سہڑہ کے گرلز کالج پر ہونے والی بمباری دیکھ کر میں مقامی لوگوں کا شکریہ ادا کرتا ہوا اپنی گاڑی میں بیٹھ رہا تھا۔ مجھے اسلام آباد پہنچنے کی جلدی تھی تاکہ لائن آف کنٹرول کی صورتحال ’’جیو نیوز‘‘ کے ذریعہ پوری دنیا تک پہنچ سکے۔ گاڑی میں بیٹھا تو علی خامنائی کے بارے میں سوال پوچھنے والا کشمیری نوجوان پھر سامنے آکھڑا ہوا اور کہنے لگا چلو علی خامنائی کو نہیں ہماری بہن ناز شاہ کو ایوارڈ دے دو جس نے مودی کو ایوارڈ دینے والوں کو ایک احتجاجی خط تو لکھ دیا۔ میں نے اس نوجوان سے کہا کہ میرے اختیار میں ہو تو آیت اللہ علی خامنائی اور ناز شاہ دونوں کو ایوارڈ دے دوں۔
یقین کیجئے کہ اس نوجوان نے مجھے بہت مغموم کردیا۔ میں کوٹلی کے راستے اسلام آباد واپس آتے ہوئے طفیل ہوشیار پوری کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ ان کا ایک سدا بہار ترانہ آج بھی کشمیریوں کی زبان پر ہے ’’اے مرد مجاہد جاگ ذرا، اب وقت شہاد ت ہے آیا‘‘۔ طفیل ہوشیاری پوری نے ایک دفعہ کہا تھا؎
اے بگڑی ہوئی قسمت کے خدائو
مجھ سے سرِ محفل ذرا نظریں تو ملائو
سچ کہنا کہ عقدہ کوئی آساں بھی کیا ہے؟
ملت کے کسی درد کا درماں بھی کیا ہے؟
رخ پھر نہ سکا گردشِ تقدیر کا اب تک
حل ہو نہ سکا مسئلہ کشمیر کا اب تک
دنیا بھر کے کشمیری اپنے کچھ بھائیوں کے ہاتھوں اپنے قاتل کی پذیرائی پر بہت دکھی ہیں۔ کشمیری پہلے بھی جانیں دیتے رہے، آئندہ بھی جانیں دیں گے لیکن وہ پوچھ رہے ہیں کہ جب وہ لاشیں اٹھا رہے ہیں تو ان کے حق میں آواز اٹھانے والے آیت اللہ علی خامنائی کو پاکستان کی طرف سے ویسا ایوارڈ مل سکتا ہے جیسا ایوارڈ بھائیوں نے مودی کو دیا؟
طفیل ہوشیاری پوری - حل ہو نہ سکا مسئلہ کشمیر کا اب تک
اے بگڑی ہوئی قسمت کے خدائو
مجھ سے سرِ محفل ذرا نظریں تو ملائو
سچ کہنا کہ عقدہ کوئی آساں بھی کیا ہے؟
ملت کے کسی درد کا درماں بھی کیا ہے؟
رخ پھر نہ سکا گردشِ تقدیر کا اب تک
حل ہو نہ سکا مسئلہ کشمیر کا اب تک
طفیل ہوشیاری پوری
Thank you Naz Shah for Supporting Kashmir Freedom Movement
Thank you Naz Shah for raise voice for People of Kashmir. You are better then our so called Muslim Ummah leaders. May Allah bless you.
STONE PELTER BORN TO DIE
I am a "STONE PELTER BORN TO DIE".
If i die in the Battle Zone,
Box me up and send me Home,
Put stones on my Chest,
And tell my MOTHER i did my best, And tell my dad not to bow,
He will not get tension from now,
Tel my BROTHER study perfectly,
Keys of my bike will be his permanently,
Tel my SISTER don't be upset,
Her bro will rise after this sunset,
Tel my LOVE not to cry,
Because I am a "STONE PELTER BORN TO DIE".
اس جزبے کو مودی سرکار کیسے ختم کرے گی۔ - Child Stand for Kashmir Freedom
اس جزبے کو مودی سرکار کیسے ختم کرے گی۔
#Kashmir
یا اللّٰہ کشمیر اور فلسطین کو آزادی کی نعمت عطاء فرما
یا اللّٰہ کشمیر اور فلسطین کو آزادی کی نعمت عطاء فرما
Love from Kashmir - Thank You Palestine
Palestinian Youth Movement protests at the New york' Stand for Kashmir. Thank you Palestinian People for Support our Freedom Movement. May Allah help you too.
Kashmiri Child chanting Freedom Slogans in front of Indian Troops
🍁A Kashmiri Child chanting "Cheen k Lein'gy AZAADI" in front of Indian Troops🍁❤❤♥💯
Boy from Kashmir Calling Pakistanies for Help
مقبوضہ کشمیر سے ایک نوجوان نے جان جوکھوں میں ڈال کر کسی سرکاری عمارت کا انٹرنیٹ استعمال کرکے پاکستانیوں اور کشمیریوں کے نام اہم پیغام بھیجا ہے۔تازہ ترین ویڈیو
Subscribe to:
Posts (Atom)