بیٹا جعلی مقابلے میں شہید ہوا
سیکورٹی فورسز نے جنگل میں دفن کردیا پولیس آفیسر باپ کے پاس آیا. پیشکش کی کہ اگر آپ درخواست دے دیں تو آپ کو بیٹے کی لاش مل سکتی ہے. باپ بولا.. وادی میں شہید ہونے والا ہر بچہ میرا بیٹا ہے.Muhammad Maqbool Bhat A True Kashmiri Freedom Fighter
مقبول بٹ ایک پڑھے لکھے نوجوان تھے۔ مقبوضہ کشمیر سے ہجرت کر کے پشاور میں آباد ہوئے اور معروف شاعر احمد فراز کے ساتھ بھی دوستی تھی۔ ایک دفعہ انہوں نے پاکستان ایئر فورس میں شمولیت کے لئے تحریری امتحان دیا لیکن جب اُن سے پاکستانی شہری ہونے کا ثبوت مانگا گیا تو اُنہوں نے ایئر فورس کی نوکری کا خیال دل سے نکال دیا۔ انہوں نے صحافت کا شعبہ اختیار کر لیا۔
1965کی پاک بھارت جنگ اور معاہدۂ تاشقند کے بعد مقبول بٹ پاکستانی ریاست سے مایوس ہو گئے اور انہوں نے اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ مل کر سیالکوٹ کے قریب سوچیت گڑھ کے محاذ کی مٹی ہاتھ میں لے کر جموں و کشمیر کی آزادی کے لئے محاذ رائے شماری بنایا۔ پھر وہ خاموشی سے مقبوضہ کشمیر چلے گئے اور وہاں اُنہوں نے مسلح جدوجہد کے لئے نوجوانوں کو تیار کرنا شروع کر دیا۔
مقبوضہ کشمیر میں وہ گرفتار ہو گئے اور سی آئی ڈی کے ایک افسر امرچند کے قتل کے الزام میں انہیں سزائے موت سنا دی گئی۔ دسمبر 1968میں مقبول بٹ اپنے دو ساتھیوں امیر احمد اور غلام یاسین کے ہمراہ سرینگر جیل کے اندر سرنگ کھود کر فرار ہو گئے اور دشوار گزار برفانی راستوں سے ہوتے ہوئے واپس آزاد کشمیر آئے۔
اُن کے دونوں پائوں فراسٹ بائیٹ سے زخمی تھے
ذوالفقار علی بھٹو نے میر پور میں اُن سے ملاقات کی اور آزاد کشمیر کا صدر بنانے کی پیشکش کی لیکن مقبول بٹ نے معذرت کر لی۔
مقبوضہ کشمیر میں انہیں سزائے موت دی جا چکی تھی لیکن وہ ایک دفعہ پھر مقبوضہ کشمیر چلے گئے۔ وہاں دوبارہ گرفتار ہو گئے۔ گیارہ فروری 1984کو اُنہیں دہلی کی تہاڑ جیل میں پھانسی دی گئی اور لاش اسی جیل میں دفن کر دی گئی۔
گیارہ فروری کو دنیا بھر کے کشمیری ایک ایسے شخص کا یومِ شہادت مناتے ہیں جو بھارت میں پاکستان کا ایجنٹ اور پاکستان میں بھارت کا ایجنٹ کہلایا۔ دونوں ریاستوں کی تضادات سے بھری پالیسیوں کے خلاف مقبول بٹ نے خود مختار کشمیر کا نعرہ لگایا تھا۔
Kashmiri Kids shouting Pro Pakistan slogans
Jiss qom ki Maayen aisi bachey paida karain, Uss qom ko koi nahi hara sakta.
Great Maulana Sarjan Barkati shouting
Who is Burhan Wani برہان مظفر وانی کون تھا؟
برہان مظفر وانی کون تھا؟
برہان مظفروانی ترال کے شریف آباد گاؤں کا رہنے والا تھا اور اسکے سر پر ہندوستانی پولیس نے دس لاکھ کا انعام رکھا تھا۔21 سالہ برہان کشمیر میں جدوجہد آزادی کو نئی جہت دینے والا سمجھا جاتا رہا تھا اسی لئے پولیس کو بھی انتہائی مطلوب تھا۔پچھلے سال اپنے بڑے بھائی کی فوج کے ذریعے ہوئی ہلاکت کے بعد برہان کا کردار اچانک خطرناک رخ اختیار کر گیا اور اس نے سوشل میڈیا کا سہارا لیکر پہلی بار کشمیر کی تحریک آزادی کو نیا رخ دیا۔اسکے ویڈیو سوشل میڈیا پر آنے لگے ۔ سوشل میڈیا کے ذریعے اسکی اپیل پر جنوبی کشمیر میں سینکڑوں نوجوان جنگجوؤں کی صف میں شامل ہوئے ۔برہان کے والد مظفر احمد وانی مقامی ہائر سکنڈری سکول میں پرنسل ہیں۔پچھلے سال چودہ اپریل کو برہان کے بڑے بھائی خالد مظفر کملہ جنگل میں فوج کے ہاتھوں شہید ہوا۔خالد مظفر پوسٹ گریجویٹ طالب علم تھا اور وہ برہان سے ملنے کےلئے اپنے دو دوستوں کے ہمراہ گیا تھا ۔
برہان مظفر وانی ایک ہونہار طالب علم تھا جس نے ہندوستانی فوجیوں کے مظالم کے خلاف صرف 15 سال کی عمر میں ہتھیار اٹھائے۔برہان وانی کے والد مظفر وانی نے گذشتہ سال ہندوستان ٹائمز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ وہ صرف اس لیے عسکریت پسند نہیں بنا تھا کہ اس کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا بلکہ اس نے اس لیے ہتھیار اٹھائے کہ اس نے ہندوستانی فوج کو دیگر لوگوں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے دیکھا ہندوستان سے آزادی حاصل کرنا صرف اس کا ہی نصب العین نہیں تھا بلکہ یہ ہر کشمیری کا مطالبہ ہے، یہاں تک کہ میرا بھی۔ایک سال قبل حزب المجاہدین کے 21 سالہ کمانڈر برہان مظفر وانی کی ایک ویڈیو سامنے آئی تھی جس میں انہوں نے کشمیری نوجوانوں کو ہندوستان قبضے کے خلاف مسلح جدوجہد کا حصہ بننے کی دعوت دی تھی۔
یہ پہلا موقع تھا کہ کشمیر کی کسی عسکری تنظیم کی جانب سے باقاعدہ طور پر نوجوانوں کو عسکری کارروائیوں میں حصہ لینے کی دعوت دی گئی۔ کشمیری نوجوانوں کے نزدیک برہان وانی حریت پسند اورایک ہیرو تھے، جبکہ ہندوستانی فورسز کا دعویٰ تھا کہ وہ ریاست میں ہونے والے متعدد حملوں میں ملوث ہیں۔
خیال رہے کہ برہان مظفر وانی کے بھائی محمد خالد وانی کو گزشتہ سال 14 اپریل 2015 کو ہندوستانی فوج نے ترال کے علاقے میں ایک 'جعلی مقابلے' میں ہلاک کر دیا تھا، خالد حسین ایم ایس کے طالب علم تھے ان کے ہمراہ ان کے ایک دوست بھی ہلاک ہوئے تھے۔ برہان مظفر وانی کے والد مظفر احمد وانی کا کہنا تھا کہ خالد گھر سے اسی وقت گیا تھا، اس کو جعلی مقابلے میں ہلاک کیا گیا۔
ہندوستانی فوج کی جانب سے حزب المجاہدین کے 21 سالہ کمانڈر کی کسی بھی قسم کی اطلاع دینے والے لیے 10 لاکھ روپے انعام دینے کا بھی اعلان کیا گیا تھا۔ یاد رہے کہ حزب المجاہدین دیگر کشمیری عسکریت پسند تنظیموں کی طرح ہندوستان کے مظالم کے خلاف مسلح جدوجہد کررہی ہے۔ برہان مظفر وانی کی شہادت کی خبر پوری ریاست میں بہت تیزی سے پھیلی جبکہ نوجوانوں کی جانب سے شدید رد عمل بھی دیکھنے میں آٓیا۔
کشمیری نوجوانوں کی جانب سے فورسز پر پتھراؤ کیا گیا جبکہ ہندوستانی فوج نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے گولیوں کا بے دریغ استعمال کیا۔3روز کے دوران احتجاج میں 31 سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں جبکہ 400سے زائد زخمیوں کو بھی طبی امداد کے لیے مختلف ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا۔