Showing posts with label Kashmir Freedom Movement. Show all posts
Showing posts with label Kashmir Freedom Movement. Show all posts

APHC Condemns India's Land Seizures and Demographic Engineering in Kashmir

All Parties Huriyat Conference Condemns India's Land Seizures and Demographic Engineering in Kashmir

The All Parties Hurriyat Conference (APHC) has strongly criticized India for speeding up its plan to change the demographics of Indian-occupied Jammu and Kashmir. They say India is doing this by taking land and changing who lives there.

A spokesperson for the APHC, Advocate Abdul Rashid Minhas, said in a statement from Srinagar that India's control over Kashmir started with the 1947 invasion of Srinagar. He added that since then, India has continued to exploit and suppress the local people.

He stated that the August 5, 2019 action, where Kashmir's special status was taken away, was another step in India's plan to control the area, fulfilling a long-held wish of Hindu nationalist groups to wipe out Kashmir's unique identity.

Minhas cautioned that India is changing the population of Indian-occupied Jammu and Kashmir by settling Hindus from outside Kashmir there. This is marginalizing the local people and taking advantage of the area's natural resources, all while under strong military control. He added that Indian business leaders are being used to push this colonial plan forward, and he compared India's actions in Kashmir to Israel's taking of land in Palestine.

Criticizing India for ignoring UN resolutions and international law, he also criticized the world's silence on India's clear colonial actions in Kashmir. "It's time for the world to speak up and hold India responsible for its colonial ambitions in Indian-occupied Jammu and Kashmir," Minhas said.

کشمیر سے روح کا رشتہ ہے

اے لفظوں کی فنکار سنو! کچھ اچھا کیوں نہیں لکھتی ہو؟
کیوں درد بھرا ہے لفظوں میں اور
قلم سے بین کراتی ہو۔۔۔
کچھ اچھا کیوں نہیں لکھتی ہو؟
ہر غزل میں وادی جلتی ہے
ہر نظم میں بیٹے مرتے ہیں
ہر سطر میں ماں رلاتی ہو ۔۔۔
کچھ اچھا کیوں نہیں لکھتی ہو؟
اے حرفوں کی فنکار سنو! کوئی پیارا قصہ لکھو ناں!
اس قصے کی پہنائی میں
اک راجا ہو، اک رانی ہو
کوئی پچھلی پریم کہانی ہو
کیوں لکھتی ہو اس بیوہ پر؟
جو ہر دستک پہ ڈرتی ہے
اور رو رو آہیں بھرتی ہے
تم اچھا کیوں نہیں لکھتی ہو؟
کشمیر سے اب کیا رشتہ ہے
کیوں شہہ رگ کہتی پھرتی ہو
وہ کٹ بھی گیا تم زندہ ہو
کیوں جھوٹی باتیں کرتی ہو۔۔۔
کچھ اچھا کیوں نہیں لکھتی ہو؟؟
چلو آو تمھیں بتلاتی ہوں کہ کچھ اچھا کیوں نہیں لکھتی ہوں۔۔۔
کشمیر سے روح کا رشتہ ہے
اور مائیں ساری سانجھی ہیں
وہاں رات کی ناگن ڈستی رہے
میں دن کا اجالا لکھتی رہوں
یہ زیب مجھے کب دیتا ہے؟
میں سچے جزبے لکھتی ہوں
ہر جزبہ سچا ہوتا ہے
اور
"سچ کب اچھا ہوتا"؟

اے اہل کشمیر

اے اہل کشمیر !
اپنی تحریک کے شعلوں کو بجھا مت دینا !
یہ شہیدوں کی امانت ہے گنوا مت دینا
تم کو ترکے میں ملی ہے جو شہیدوں کے طفیل
اپنے ہاتھوں سے وہ تلوار گرا مت دینا
کٹ کے گر جاۓ تو گر جاۓ شانوں سے مگر
سر کسی حال بھی اپنا یہ جکا مت دینا
ساتھ تائید الہیٰ ہے تمہارے جب تک
فتح برحق ہے ! عزائم کو سُلامت دینا
صبح صادق میں بہت دیر نہیں ہے لیکن
ابھی عجلت میں چراغوں کو بجھا مت دینا !

‏کشمیری بچوں کی آنکھوں کو بھارتی بیلٹ گنز سے بچایا جائے

‏کشمیری بچوں کی آنکھوں کو بھارتی بیلٹ گنز سے بچایا جائے۔
جنیوا میں اقوام متحدہ کے دفتر کے سامنے ایک غیر ملکی خاتون کا عالمی طاقتوں سے مطالبہ۔

Mashal Malik video message on 5th August 2020


Kashmiri Boy Rejected Shake Hand indian army

Rejected..
Sorry I m kashmiri ....and you are killer of innocents Kashmiris First of All stop Killing US and release our Loved One and Leave our land and visit us as a guest not as an occupier ... We will take you to our homes and give you respect more then your imagination.


I am Kashmiri

I am Kashmiri


kill me and call it collateral damage

imprison me and call it security measures

invade my land and call it democracy

i am kashmiri

Impact of Indian Army activities on the Children of Jammu and Kashmir.

Impact of Indian Army activities on the Children of Jammu and Kashmir.

I want freedom 4 my motherland

I am born free but enslaved physically. I never wanna die in slavery. I want freedom 4 my motherland.


یہ وطن ہمارا ہے


محبتیں بکھرتے بڑھے چلو بڑھے چلو
عظمتوں کا راستہ ہے ہمارا راستہ
سرینگر کا راستہ ہے ہمارا راستہ
مقبول بٹ کا راستہ ہے ہمارا راستہ
غیرتوں کا راستہ ہے ہمارا راستہ
سن لو غاصبو ہم تمھاری موت ہیں
سن لو قابضو ہم تمھاری موت ہیں
کشمیر کا ذرہ ذرہ ہے کشمیر میں رہنے والوں کا
وطن ہمارا قبضہ تمھارا نہ منظور نہ منظور
ڈیم ہماری بجلی تمھاری نہ منظور نہ منظور
عدالتیں ہماری قانون تمھارا نہ منظور نہ منظور
پارلیمنٹ ہماری نوکر تمھارے نہ منظور نہ منظور
یہ وطن ہمارا ہے
اسکی خاطر ہم لڑیں گے
اسکی حفاظت ہم کریں گے
اس پر حکومت ہم کریں گے

کشمیریوں کا یو این کے نام پیغام

نہ آواز ہوئی، نہ تماشہ ہوا،
بڑی خاموشی سے ٹوٹ گیا،
اِک بھروسہ جو تجھ پہ تھا
کشمیریوں کا یو این کے نام پیغام


How to protect the honor of Kashmiri sisters?



بہنوں کی عزت کیسے بچائیں؟

فاطمہ مسلسل روئے چلی جا رہی تھی۔ بلوندر سنگھ بار بار اُسے دلاسا دے رہا تھا اور کہہ رہا تھا اوئے چھوٹی اپنے آپ کو سنبھال جو بات کہنے آئی ہے وہ بتا، بھائی جی بڑے مصروف آدمی ہیں تو نے تو سارا ٹائم رونے میں ضائع کردیا۔ میں نے پانی کی بوتل کھولی اور فاطمہ کی طرف بڑھا کر کہا کہ آپ تھوڑا پانی پی لیں۔ فاطمہ نے پانی پیا اور پھر اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے خالص کشمیری لہجے میں ملی جلی اُردو اور انگریزی بولنے لگی۔ اُس نے کہا میں بڑی اُمید لے کر آپ کے پاس آئی ہوں، آپ کا شکریہ کہ آپ نے ہمیں وقت دے دیا اور ہمیں معاف کر دیں ہم نے آپ کے ساتھ علیحدگی میں ملاقات پر اصرار کیا اگر آپ مصروفیت کا بہانہ بنا کر ہمیں وقت نہ دیتے تو ہم آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے تھے۔ فاطمہ اور بلوندر کے ساتھ میری ملاقات اجیت کے ذریعہ ہوئی۔ لندن میں برطانوی پارلیمنٹ کے باہر مقبوضہ کشمیر اور آزاد کشمیر کے لوگوں کے ساتھ جیو نیوز کے لئے ایک پروگرام کی ریکارڈنگ کے بعد میں مانچسٹر سے رکن پارلیمنٹ افضل خان کا شکریہ ادا کر رہا تھا کہ پینٹ شرٹ میں ملبوس ایک نوجوان لڑکی نے سرگوشی کے انداز میں مجھے ہیلو کیا اور پھر پنجابی میں کہا کہ میری ایک دوست کا تعلق سرینگر سے ہے وہ آپ کو ملنا چاہتی ہے۔ میں نے کہا آپ کی دوست کہاں ہے؟ لڑکی نے کہا میری دوست یہاں نہیں آ سکتی، کچھ پرابلم ہے۔ آپ سے بنتی ہے کہ آپ ہمیں آج شام کو ملاقات کا وقت دے دیں۔ میں نے اندازہ لگا لیا کہ بنتی کا لفظ استعمال کرنے والی یہ لڑکی ہندو یا سکھ ہے۔ میں نے پوچھا آپ کون؟ اُس نے کہا کہ ’’آئی ایم اجیت‘‘۔ وہ بار بار کچھ دور کھڑے گورچرن سنگھ کی طرف دیکھ رہی تھی اور اُس کی نظروں سے بچنے کی کوشش کر رہی تھی۔ میں نے پوچھا کہ آپ گورچرن کو جانتی ہیں؟ اجیت نے کہا کہ گورچرن جی میرے بڑے بھائی بلوندر کے دوست ہیں یہ آپ کے پروگرام میں شریک تھے ان پر انڈین گورنمنٹ نے بہت سے جاسوس چھوڑ رکھے ہیں اور انہی کی وجہ سے میری کشمیری دوست آپ کو یہاں نہیں مل رہی کیونکہ گورچرن بھائی سے ملنے جلنے والوں کی وڈیو اور تصویریں بنا کر اُن کی شناخت ڈھونڈ لی جاتی ہے اور اس وقت میری دوست اپنی شناخت چھپانا چاہتی ہے کیونکہ اُس کی فیملی انڈیا میں بڑی مشکل صورتحال سے دوچار ہے۔ میں نے اجیت کو بتایا کہ آج شام کو مصروف ہوں، کل صبح آپ میرے ہوٹل آ جائیں۔ اجیت نے دونوں ہاتھ جوڑ کر کہا آپ بُرا نہ منانا ہم ہوٹل میں بھی نہیں مل سکتے کیونکہ ہمیں پتا ہے یہاں آپ پر بھی بہت لوگوں کی نظر ہے۔ اُس نے مجھے آکسفورڈ اسٹریٹ پر ایک اٹالین ریسٹورنٹ کا ایڈریس دیا اور اگلے دن صبح دس بجے وہاں ملاقات کا وقت طے ہو گیا۔
اگلے دن مقررہ وقت پر اجیت اپنی دوست کشمیری لڑکی کے ساتھ ملاقات کے لئے آئی تو ساتھ میں ایک لمبا تڑنگا سکھ نوجوان بھی تھا۔ یہ بلوندر تھا جو اجیت کا بڑا بھائی تھا۔ اس کشمیری لڑکی نے مجھے اپنا جو نام بتایا وہ میں پورا نہیں لکھ رہا صرف نام کا دوسرا حصہ فاطمہ لکھا رہا ہوں۔ فاطمہ اور بلوندر کو میرے ساتھ بٹھا کر اجیت نے ہمارے لئے چائے پانی کا آرڈر دیا اور ریسٹورنٹ سے باہر جا کر بیٹھ گئی۔ ہماری ملاقات شروع ہوئی تو فاطمہ نے رونا شروع کر دیا۔ اب آہستہ آہستہ وہ ٹشو پیپر سے اپنے آنسو خشک کر کے مجھے اپنی کہانی سنا رہی تھی۔ فاطمہ کے والد سرینگر میں کشمیری شالوں کا کاروبار کرتے ہیں۔ کچھ سال پہلے فاطمہ کو اعلیٰ تعلیم کے لئے دہلی کے ایک کالج میں داخلہ مل گیا تو اُس کے والد نے دہلی میں ایک فلیٹ کرائے پر لے لیا۔ وہ بیٹی کے ساتھ دہلی آ گئے اور وہاں کشمیری شالوں کے کاروبار کو پھیلانے کی کوشش کی۔ دو سال کے بعد فاطمہ کی ایک اور بہن کو بھی دہلی میں داخلہ مل گیا تو فاطمہ کی باقی دو بہنیں اور والدہ بھی دہلی آ گئے۔
اس دوران فاطمہ قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے برطانیہ آ گئی۔ 5اگست 2019کو بھارتی حکومت نے ریاست جموں و کشمیر میں کرفیو نافذ کیا تو فاطمہ کے والد سرینگر میں اور دو بہنیں والدہ کے ساتھ دہلی میں تھیں۔ فاطمہ اور اس کی فیملی کا اپنے والد سے رابطہ منقطع ہو گیا۔ اس دوران دہلی سمیت بھارت کے مختلف شہروں میں کشمیریوں پر حملے شروع ہو گئے اور کشمیری خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات پیش آنے لگے۔ دہلی میں زیر تعلیم بہت سی کشمیری طالبات کے اپنے خاندانوں کے ساتھ رابطے ختم ہو گئے۔ فاطمہ کی ایک کزن اور سہیلی کا تعلق بھی سرینگر سے ہے۔ یہ دونوں بھی دہلی کے ایک ہوٹل میں مقیم تھیں۔ دہلی میں ہندو لڑکوں نے کشمیری لڑکیوں کو ہراساں کرنا شروع کیا تو فاطمہ کی کزن اور سہیلی دہلی میں اُس کی بہنوں کے پاس آ گئیں۔ اب ایک چھوٹے سے فلیٹ میں چار لڑکیاں اور ایک خاتون مقیم تھیں جو دن رات سرینگر میں اپنے خاندانوں سے رابطے کے لئے بھاگ دوڑ کر رہی تھیں۔ کچھ ہی دنوں میں ان سب کی پریشانی ایک تماشہ بن گئی اور آر ایس ایس کے غنڈوں نے ان نہتی لڑکیوں کو ڈرانا دھمکانا شروع کر دیا۔ پچھلے ہفتے فاطمہ کے والد کسی طریقے سے واپس دہلی پہنچے۔ اُنہوں نے اپنے فلیٹ پر مقیم چار جوان لڑکیوں کی عزت بچانے کے لئے دبئی میں مقیم اپنے دوست ظفر نائیک سے رابطہ کیا۔ ظفر نائیک نے ان لڑکیوں کو ایک اور خلیجی ملک لانے کا بندوبست کر لیا لیکن اس دوران ان کا فون بند ہو گیا۔ فاطمہ بتا رہی تھی کہ دو دن پہلے اُس کی بہن کو دہلی میں اغواء کرنے کی کوشش ہوئی ہے۔ اس دوران فاطمہ کے والد نے ظفر نائیک کا ذکر میرے ایک حالیہ کالم میں پڑھا تو مجھ سے رابطے کی کوشش کی۔ کوشش کامیاب نہ ہوئی۔ پھر اُنہیں پتا چلا کہ میں برطانیہ آیا ہوا ہوں تو اُنہوں نے فاطمہ سے کہا کہ کسی طرح حامد میر تک پہنچو اور ظفر نائیک کا رابطہ مانگو۔ فاطمہ نے کہا کہ اب میرے والد اور باقی خاندان کو بلوندر بھائی کے چچا نے جالندھر میں اپنے گھر پناہ دے رکھی ہے۔ ہمیں ظفر نائیک کا فون نمبر چاہئے۔ میں نے فاطمہ کو بتایا کہ ظفر نائیک نے دو ہفتے پہلے دبئی چھوڑ دیا ہے اور دوحہ چلے گئے ہیں اُن کا نمبر بدل گیا ہے اور طبیعت بھی ناساز ہے۔ بہرحال میں نے کچھ تگ و دو کے بعد ظفر نائیک کو تلاش کر لیا تو وہ واقعی بیمار تھے۔ اُنہوں نے فاطمہ کے ساتھ فون پر بات کر لی اور کہا کہ میں بیماری کے باعث آپ کے والد سے رابطہ نہ کر سکا آج ہی رابطہ کرتا ہوں اور تمہاری بہنوں کو دوحہ بلاتا ہوں۔ پھر فاطمہ نے اپنے والد کو بھی یہ خوشخبری سنا دی۔ اب اُس کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ اُسے سب کچھ مل گیا ہے۔ رخصت ہوتے وقت بلوندر سنگھ نے مجھے کہا کہ ہم نے مل جل کر چار کشمیری لڑکیوں کی عزت تو بچا لی لیکن ہزاروں لاکھوں کشمیری بہنوں کی عزتیں خطرے میں ہیں، آپ کے وزیراعظم نے اعلان کیا ہے کہ ہر جمعہ کو آدھ گھنٹہ کے لئے بھارت کے خلاف احتجاج کرو کیا اس طرح بہنوں کی عزت بچائی جاتی ہے؟

STONE PELTER BORN TO DIE

 I am a "STONE PELTER BORN TO DIE".


If i die in the Battle Zone,
Box me up and send me Home,
Put stones on my Chest,
And tell my MOTHER i did my best, And tell my dad not to bow,
He will not get tension from now,
Tel my BROTHER study perfectly,
Keys of my bike will be his permanently,
Tel my SISTER don't be upset,
Her bro will rise after this sunset,
Tel my LOVE not to cry,
Because I am a "STONE PELTER BORN TO DIE".